Orhan

Add To collaction

لکھ پھر سے تو نصیب میرا

لکھ پھر سے تو نصیب میرا
از سیدہ
قسط نمبر4

صفوان آفس سے جلدی آگیا تھا وہ فریش ہو کر نیچے آیا
صفوان ذرا تم نمل کو ایڈمشن کے لئے لے جاؤ گے یونیورسٹی؟ سکینہ جو صفوان کے لئے چائی نکال رہی تھی  کہا 
نہیں تائی میں خود چلی جاؤں گی یا حمنہ کو لے جاؤں گی۔۔۔سکینہ کی بات پہ نمل نے کہا 
میرے ساتھ کیا جاتے ہوۓ ڈر لگے گا۔۔۔۔نمل کے اچانک بولنے پہ صفوان نے اسکے جانب دیکھتے ہوۓ کہا 
نہیں آپ کو اوف لینی پڑے گی آفس سے تبھی کہا 
تو میرا اور  آفس کا مسلُہ ہے میں دیکھ لونگا۔۔۔۔۔آپ فکر نہیں کریں میں لے جاؤنگا اور تم تیار رہنا صبح۔۔۔۔۔صفوان کے ایسے کہنے پہ نمل کو حیرت ہوئی۔۔۔۔۔
نمل صبح وقت پہ تیار تھی صفوان اسے یونیورسٹی لے کر گیا وہاں سارے کام خود ہی کیے نمل کو بہت حیرت ہو رہی تھی 
دونوں یونیورسٹی سے نکل رہے تھے تبھی صفوان نے کہا شوپنگ پہ چلیں۔۔
کیا؟ شوپنگ پہ اچانک کیوں۔۔۔۔۔
ارے تمھیں اتنا ٹائم ہوگیا گھر آے کہیں باہر نہیں گئی۔۔۔۔تبھی کہا 
آپ یہ اتنا اچھا اسلئے تو پیش نہیں رہے کے بیچاری یتم ۔۔۔۔۔
حد ہے یار کہاں کی بات کہاں لے گئی کیوں کیا کزن نہیں ہو میری تم۔۔۔۔۔۔صفوان نمل کے جواب پہ تپ گیا 
نہیں وہ میں۔۔۔۔۔۔
چھوڑو چلو چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔صفوان کے دماغ میں کیا چل رہا تھا بیچاری نمل بے خبر تھی وہ ماں باپ کے آنچل میں بڑی ہوئی تھی اسے ظالم دنیا کا کچھ پتا نہیں تھا 
صفوان نے نمل اچھی خاصی شوپنگ کروائی پھر آئسکریم دلائی۔۔۔۔۔۔۔صفوان کا اتنا اچھا روپ دیکھ کر نمل کو کافی اچھا لگا وہ اب ایزی فیل کر رہی تھی۔۔۔۔۔
ارے واہ ۔۔۔۔۔شوپنگ ہو رہی تھی۔۔۔۔۔اندر آتی نمل کے ہاتھ میں شوپنگ بیگ دیکھ کر حمنہ نے کہا 
وہ۔۔۔جی ہو رہی تھی۔۔۔اپنے لئے تھوڑا سامان لینا تھا تو سوچا انکو بھی کروا دوں شوپنگ۔۔۔۔نمل جواب دیتی اس سے پھلے صفوان نے جواب دیا 
ارے واہ۔۔۔۔۔بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔۔خیریت کیسے اتنے اچھے ہوگے تم۔۔۔۔سکینہ نے صفوان کے کان پکڑ کے کہا 
ہاے ماما۔۔۔درد ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کیسے ہوگیا اتنا اچھا صفوان نے آنکھ مارتے ہوۓ کہا
چلیں میں آفس جا رہا ہوں۔۔۔۔۔صفوان کا اشارہ سکینہ سمجھ چکی تھی 
______________
ابے۔۔۔بہت ہی بھولی ہے یار۔۔۔۔۔بہت آسانی سے میرا شکار ہو جائے گی۔۔۔صفوان نے نمل کی معصومیت کا مذاق بناتے ہوۓ کہا 
لیکن بیٹا۔۔۔۔بنا نکاح کے قریب بھی آنے نہیں دیے گی بابر نے سیگریٹ کو لبوں سے لگاتے ہوۓ 
میری جان وہ تو گھر والے خود کروا دینگے۔۔۔۔ صفوان نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا 
کیا کیا۔۔۔۔۔۔جیسے تیرے ابا ہیں نا اور تیری جو حرکتیں ہیں بھول جا۔۔۔۔
م میں نے صرف ابھی ڈھونگ کیا ہے سدھرنے کا تو میری ماما مجھے پہ قربان ہو رہی ہیں۔۔۔۔تو ابا کیا چیز ہیں اور وہ نمل بھی 
بڑا کمینہ ہے تو سالے۔۔۔۔۔ویسے تیری تتلی پوچھ رہی تھی 
ہاں جانی بڑے دن ہوگے پیاس نہیں بھوجائی۔۔۔۔۔صفوان نے سینے پہ ہاتھ مارتے ہوۓ کہا 
چل چلتا ہوں۔۔۔۔۔بابر کو کہہ کر صفوان ایک اور گناہ کو گلے لگانے چل دیا 
_____________
الہی۔۔۔۔۔ باہر کچھ سامان لینے آیا تھا وه دکان پہ کھڑا سامان کا انتظار کر رہا تھا تبھی کسی نے پیچھے سے کہا 
اَللّهُ کے نام پہ دے دو۔۔۔۔۔الہٰی  نے موڑ کر دیکھا تو ایک ہٹا کٹا مرد تھا۔۔۔۔۔
صاحب نہیں دینا بلکول ٹھیک ہے پھر بھی بھیگ مانگتا ہے۔۔۔۔۔دکاندار نے کہا 
ایک بات کہوں جس اَللّهُ کے نام سے مانگ رہے ہو نا اگر اس اَللّهُ سے مانگوں گے تو بھیگ مانگنے کی ضرورت ہی پڑے گی 
  الہٰی نے سامان لیا اور گھر کی طرف چل دیا۔۔۔۔۔۔گھرتک کا راستہ وه پیدل ہی طے کر رہا تھا تبھی اسکی نظر پاس سے گزرتے رکشے پہ پڑی اندر بیٹھے انسان کو دیکھ کر الہی نے آس پاس دیکھے بنا دوڑ لگا دی وه پاگلوں کی طرح روڈ پہ دوڑ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔وہ کتنا بھاگتا وه رکشا اس سے بہت دور چلا گیا 
________________
نہیں نہیں وه نہیں ہو سکتا وه۔۔۔۔کیوں دیکھایا مجھے اسے۔۔۔۔۔میں نہیں  دیکھنا چاہتی تھی اسے۔۔۔۔وه مصلہ پہ بیٹھی پچھلے آدھے گھنٹے سے رویے جا رہی تھی 
بس کردو اور کتنا رو گی اسکی روم میٹ نے کہا 
وشما میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی اسے پھر میں نے موڑ کے دیکھا وه روڈ پہ پاگلوں کی طرح دوڑ رہا تھا وه وشما کے گلے لگی اسے سارا حال بیان کر رہی تھی
لیکن اگر دیکھ بھی لیا تو کیا ہوا وه نہیں جانتا کے تم کہاں ہو ۔۔۔۔۔
وشما تم نہیں جانتی اسکی ضد وه مجھے ڈھونڈ لے گا ۔۔۔۔۔۔وه ابھی بھی رو رہی تھی 
میری بات سنو جو تمہیں پچھلے چار سالوں میں ڈھونڈ سکا اب کیسے ڈھونڈے  گا۔۔۔وشما نے کہا 
پکانہ۔۔۔۔۔۔۔اسے یقین بھری نظروں سے کہا 
ہاں پکا۔۔۔۔۔۔۔۔
_____________
کون جانتا تھا دن بھر مظبوط دیکھنے والا مرد رات کو کیسے اَللّهُ کے آگئے روتا تھا۔۔۔۔۔۔
میں نے اسے ہی دیکھا تھا میری  آنکھیں دھوکہ نہیں کھا سکتی وہی تھی میرے مالک مجھے تجھ تک آنے کا راستہ اس ہی نہ دیکھایا تھا میرے اَللّهُ میرے پیارے اَللّهُ میں روز مر رہا ہوں تڑپ رہا ہو واسطہ ہے تجھے تیرے محبوب کا تونے جیسے اسکی جھلک دیکھا کر مجھے امید دی مجھے اس سے ملا بھی دے میرے مرنے سے پھلے ایک بار بس ایک مجھے اس سے ملا دے۔۔۔۔۔۔وه گڑگڑا تھا رو رہا تھا تڑپ رہا تھا 
صبح اسکی آنکھ دروازے پہ ہونے والی دستک کی وجہ سے کھولی تھی۔۔۔۔۔رات بھر رونے کی وجہ سے اس سے اٹھا نہیں جا رہا تھا وه مشکل سے اٹھا دروازہ کھولا تو سامنے اسکی بہن کھڑی تھی 
بھائی آپ کی آنکھیں۔۔۔۔۔
نہیں نہیں کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔الہٰی کہہ کر پلٹا تھا لیکن اسکی بہن نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا 
بھائی پلیز مجھ سے تو نہ چھپایں میں سب جانتی ہوں ان چار سالوں میں کوئی رات ایسی نہیں گزری جب میں نے رات کو آپ کے کمرے سے رونے کی آواز نہ سنی ہو۔۔۔۔۔۔بھائی کی سوجی آنکھیں اور تڑپ دیکھ کر اس سے برداشت نہیں ہوا 
تو کیا کرو میں بتاؤ کیا کرو۔۔۔۔بتاؤ میرے پاس رونے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے میں نے یہ سزا اپنے لئے خود چنی ہے میں اپنے کیا ہوا بھگت رہا ہوں میرے پاس کچھ نہیں ہے میری بیوی چلی گئی میری اولاد کو میرے رب نے مجھ سے لے لیا اور جس سے محبت ہوئی اسکے جانے کے بعد احساس ہوا اپنے گھر میں رہتا ہوں لیکن غیروں کی طرح میرا باپ مجھ سے روٹھا ہے میری ماں مجھے سے  چار سالوں سے بات نہیں کرتی ۔۔۔۔۔۔۔الہی چہرے کو ہاتھوں میں چھپا کر رو رہا تھا 
بھائی پلز۔۔۔۔۔نہیں روئیں۔۔۔۔۔۔بھائی کا غم برداشت نہیں ہو بھائی کے گلے لگ گئی۔۔۔۔۔
دروازے کے کے پیچھے کھڑے اسکے والد سب سن رہی تھے۔۔۔۔۔
میرے بیٹے اَللّهُ تمہیں صبر دے یہ آگ اپنے لئے تم نے خود پسند کی کتنا کہا تھا سمبھال جاؤ۔۔۔۔۔بیٹے کو روتا بیلکتا دیکھ کر انکا بھی دل رو اٹھا 
______________
شایان آپکا بیٹا ٹھیک ہوگیا ہے۔۔۔۔سکینہ ساتھ بیٹھے میاں کو بتا رہیں تھی 
وه تو میں بھی دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔دل کو سکون ہوگیا ہے تمھیں اسے دیکھ کر۔۔۔۔۔۔
تبھی نمل سب کے لئے چائی لے آئی۔۔۔۔۔سب چائی پی رہے تھے تبھی حمنہ نے کہا 
بھائی سنڈے ہے چلیں مجھے اور نمل کو لے کر کہیں ۔۔۔۔
تم چلی جاؤ میں۔۔۔۔۔تم بھی جاؤگی نمل کا جملہ مکمل ہوتا اس سے پھلے حمنہ نے کہا 
چلو پھر تیار ہو جاؤ چلتے ہیں۔۔۔۔نمل چلو گی نہ صفوان نے جن نظروں سے کہا تھانمل بلش کرنے لگی۔۔۔۔۔۔
حمنہ کی ضد پہ تینوں شوپنگ مال آے تھے نمل حمنہ کے ساتھ  اسے ڈریس پسند کرنے میں مدد کر رہی تھی صفوان دوسری طرف سکینہ کے لئے ڈریس پسند کر رہا تھا 
نمل پیچھے ہوئی تو کسی کا پیر اسے پیر کے نیچے آگیا۔۔۔
سوری میں نے دیکھا نہیں تھا۔۔۔۔۔۔نمل کہا 
جاہل اندھی ہو۔۔۔۔۔۔وه لڑکی بدتمیزی کر رہی تھی۔۔۔۔۔
دیکھیں میں کہہ رہی ہوں میری غلطی تھی۔۔۔
کیا غلطی اتنی زور سے پیر پہ چڑ گئی۔۔پتا نہیں کہاں کہاں سے آجاتی ہیں کبھی باپ نے بھی نہیں دیکھا ہوگا مال 
اس لڑکی کے ان لفظوں پہ نمل کا ہاتھ اٹھا اور سیدھا اسکے گل پہ لگا 
تھپڑ کی آواز پہ صفوان بھی ادھر آیا لیکن جسکو تھپڑ پڑا تھا اسے صفوان دیکھ کر حیران ہوگیا وه صفوان کو پہچان گئی تھی وه اسے آواز دیتی اس سے پھلے صفوان نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا 
مجھے بول رہی تھی ٹھیک تھا لیکن میرے باپ تک جا کر اچھا نہیں کیا نمل نے انگلی دیکھا کر کہا 
وه لڑکی اتنے لوگوں کے درمیان میں اپنی ہونے والی بے عزتی اور صفوان کے چپ رہنے پہ پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی 

   1
0 Comments